√ سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت قسط 2

سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت قسط 2


میرے سیل فون کی گھنٹی کچھ دیر بجتی رہی۔ پھر بند ہو گئی۔ مجھ پر تشدد روک دیا
 گیا تھا۔ سر نیچے جھکا ہونے کی وجہ سے یہ دیکھنے سے قاصر تھا کہ مجھے کہاں لے جایا جا رہا ہے۔ لیکن یہ اطمینان ہو گیا تھا کہ ان لوگوں کا فی الحال مجھے فوری طور پر قتل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے ورنہ اتنی دور لے جانے کی کیا ضرورت تھی۔ وہاں آس پاس ہر طرف ویرانہ تھا۔ سیل فون کی گھنٹی دوبارہ بجی۔ ڈرائیور نے فون والے کو ایک فصیح گالی سے نوازا، پھر کچھ کھٹ پھٹ کی آواز سنائی دی۔ اس کے بعد دوبارہ کال نہیں آئی۔ شاید بیٹری کھول کے سم پھینک دی گئی تھی۔ کچھ دیر بعد کار ایک جگہ جا کے رکی۔ کھینچ کر مجھے نیچے اتارا گیا۔ میں لڑکھڑا کے گرتے گرتے بچا، ٹانگیں اور پیر سن ہو چکے تھے اور کمر نے سیدھا ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ ایک اہلکار نے میرے سر کو اپنے ہاتھ سے اس طرح دبائے رکھا کہ میری ٹھوڑی میرے سینے میں دھنس رہی تھی، اس لیے میں تھانے کا نام دیکھنے سا قاصر رہا، گھیسٹتے ہوئے مجھے ایک برآمدے سے گزار کر ایک سیلن زدہ سے کمرے میں لے جایا گیا جہاں ایک زرد رنگ کا بلب بیمار سی روشنی پھیلا رہا تھا۔ ٹیبل کے پیچھے ایک بھاری بھر کم ایس ائی ٹیبل پر ٹانگیں رکھے سگریٹ پینے میں مگن تھا۔ ایک نوعمر سا لڑکا اس کے پیچھے کھڑا اس کے کندھے دبا رہا تھا۔ ایس آئی نے اطمینان سے سگریٹ ختم کی، اپنی ٹانگیں میز سے نیچے اتاریں اور پیچھے کھڑے لڑکے کو ہاتھ کے اشارے سے وہاں سے جانے کا کہا۔ کچھ دیر تک میرا آنکھوں سے ایکسرے کرنے کے بعد اس نے ساتھ کھڑے اہلکار سے آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ پوچھا تو اس نے جیب سےمیرا بٹوا اور دوسرا سامان نکال کے اس کے سامنے رکھ دیا۔ ایس آئی نے نیا سگریٹ سلگایا اور باریک بینی سے میرے شناحتی کارڈ اور ڈرائیونگ لائسنس کا معائنہ شروع کیا۔\nاس کی کچھ خاطر تواضع کی ہے؟ ایس ائی نے میری طرف دیکھے بغیر کانسٹیبل سے پوچھا۔\nہاں جی! کار میں کچھ چائے پانی پلایا ہے، ابھی ڈرائنگ روم میں لے جا کے کچھ ٹہل سیوا کرتے ہیں، اس۔۔۔۔کی۔\nکیوں بے! تجھے شرم نہیں آئی جس تھالی میں کھاتے ہو اسی میں گند ڈالتے ہوئے؟ بڑا ہی حرامی نسل کا انسان ہے یار تو، تو۔ تجھے تو آری سے کاٹ دینا چاہیے۔ کب سے چلا رہا ہے یہ عشق معشوقی کا چکر؟\nایس آئی نے ٹانگیں دوبارہ ٹیبل پر چڑھاتے ہوئے کہا۔\nسر! ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ سیٹھ صاحب کے مجھ پر جتنے احسان ہیں، میں مر کے بھی وہ نہیں اتار سکتا۔ حارث صاحب کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ میں اس گھر سے دور رہوں تو میں یہ نوکری بلکہ یہ شہر چھوڑنے کو تیار ہوں۔ میں فوراً گھر چلا جاؤں گا، پھر کبھی واپس نہیں لوٹوں گا۔\nسر میں بہت غریب آدمی ہوں۔ آپ مجھ پر رحم کریں میں ساری عمر آپ کو دعائیں دوں گا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میری آواز گلوگیر ہوگئی اور میں نے ہاتھ جوڑ دیے۔\nابھی تو آیا ہے تو، ابھی سے جانے کی بات تو نہ کر یار ۔۔ لگتا ہے تجھے بیگم صاحبہ کی یاد آ رہی ہے۔ ایسی بات ہے نا؟؟\nایسی کوئی بات نہیں ہے سرکار! مجھے مکے مدینے کی قسم، مجھے سوہنے رب دی قسم میں جھوٹ بولوں تو کافر ہو کے مروں۔ میں بے اختیار پھوٹ پھوٹ کے رو پڑا۔\nاس کو لے جاؤ اور ننگا کر کے الٹا لٹکا کے مارو اور تب تک مارو جب تک یہ ساری بات نہیں بتاتا اور اس سے پہلے جو یہ کرتوت کرتا رہا ہے، وہ بھی اس سے پوچھو۔ اور ظہیرے کو میرے پاس بھیج دو۔\nمجھے گھیسٹ کے ایک عقوبت خانے میں لے جایا گیا۔ یہاں بھی زرد رنگ کا بلب جل رہا تھا۔ کمرا سیلن اور عجیب سی بو سے بھرا ہوا تھا۔ دیواروں اور فرش پر جابجا خون کے داغ نظر آرہے تھے۔ میں مسلسل اپنی بےگناہی کی دہائی دے رہا تھا لیکن ان پولیس والوں پر میری کسی التجا کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔\nمیں آخری دفعہ پوچھ رہا ہوں کہ الف سے لے کر یے تک ساری کہانی مجھے سنا دے، ورنہ میں تجھے کوئی نئی کہانی بنانے کے قابل بھی نہیں چھوڑوں گا۔ شادی کے قابل بھی نہیں رہے گا تو۔ بڑی بڑی مونچھوں والے کانسٹیبل نے اپنے ریچھ جیسے ہاتھ سے میرے دونوں گالوں کو پچکا کے پوچھا۔ میں درد کی شدت سے تڑپ رہا تھا لیکن اس کی جناتی گرفت سے نکلنا میرے لیے ناممکن تھا۔\nیہ اس طرح نہیں مانے گا۔ اس کے کپڑے اتار کے لٹکاؤ اسے۔ تھوڑی دیر بعد میں لباس فطری میں چھت کے ساتھ لگے کنڈے کے ساتھ بندھی رسی کے سہارے الٹا لٹک رہا تھا۔ کچھ گھنٹے پہلے میں نے اس چیز کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ایک وحشی سا اہلکار پوری طاقت سے مجھے تار اور چمڑے کے چھتر سے مار رہا تھا۔ کھال ادھڑ رہی تھی لیکن اب میری چیخوں میں درد سے زیادہ غصہ اور بغاوت تھی۔ میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ مجھے موقع ملا تو میں انھیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔\nاچانک تشدد روک دیا گیا۔ میں نے آنکھیں کھول کے دیکھیں، کریہہ چہرے والا کانسٹیبل میرے کندھے اور بازو کا بغور معائنہ کر رہا تھا۔ اس نے میرے جسم کو روشنی کی طرف گھما کے گولیوں کے زخموں کے نشان غور سے دیکھے.\nیہ گولیوں کے نشان ہیں؟ وہ چونکا ہوا لگ رہا تھا۔\nہاں یہ گولیوں کے نشان ہیں۔ میں نے نقاہت سے کہا۔\nکچھ دیر بعد میں دوبارہ کپڑوں میں ملبوس ایس آئی کے سامنے کھڑا تھا۔\nمیرے سامنے کوئی ہینگی پھینگی نہ مارنا۔ بیشتر کہانی کا مجھے پہلے ہی پتہ ہے۔ سیدھے اور آسان لفظوں میں مجھے بتاؤ۔ اس دن مغل پورہ کی نہر اور بھٹہ چوک پر کیا ہوا تھا؟\nایس آئی نے دو سگریٹ سلگا کے ایک مجھے پیش کیا اور ایک اپنے ہونٹوں میں دبا لیا۔ میں نے جلدی جلدی دو تین کش لگا کے اپنے اعصاب کو پرسکون اور خیالات کو مجتمع کیا، اور بولنا شروع کر دیا۔\nیہ اکتوبر کی ایک شام تھی۔ ہم آٹھ پنجاب رینجرز کے جوان کیپٹن لودھی کی قیادت میں شالیمار کے قریب مغل پورہ کی نہر پر کھڑے اکا دکا اور مشکوک گاڑیوں کو چیک کر رہے تھے۔ اچانک ایک سفید رنگ کی کار بڑی تیزی سے زگ زیگ انداز میں دوڑتی ہوئی سڑک پر نمودار ہوئی۔ کار میں کم سے کم چار لوگ تھے بعد میں پتہ چلا پانچ تھے۔ ہمارے روکنے پر بھی وہ نہیں رکے۔ جی تھری کے ٹریگر پر میری انگلی مچل کے رہ گئی لیکن لودھی نے سڑک پر رش کی وجہ سے فائرنگ کی اجازت نہیں دی۔ اب ہماری ٹیوٹا ہائی لکس طوفانی رفتار سے سفید کار کے پیچھے دوڑ رہی تھی۔ کار کا رخ شہر سے باہر کی طرف تھا۔ ائیرپورٹ چوک کے قریب ہم نے ان پر پہلا فائر کیا۔ اگلے ایک کلومیڑ میں ہم ان کی کار ناکارہ کر چکے تھے۔ جوابی فائرنگ کرتے ہوئے وہ ایک کھلے میدان میں موجود کھڈوں اور مٹی کے چھوٹے ٹیلوں کے پیچھے اوٹ لینے میں کامیاب ہو گئے تھے جبکہ ہم ان کے مقابلے میں کھلے میں تھے۔ دوسرا ایڈونٹیج انھیں اے کے فورٹی سیون کا تھا۔ ان کو پاس ایمونیشن کی کوئی کمی بھی نہیں تھی، ہم ایک فائر کرتے تو وہ جواباً پوری میگزین ہم پر خالی کر دیتے۔ حالات مخدوش لگ رہے تھے، میرے پاس صرف بارہ میگزین کا ایمونیشن تھا، ہر میگزین میں بیس گولیاں تھیں۔ قانون کے مطابق مجھے چار میگزین کا ایمونیشن ہر قیمت پر بچا کے رکھنا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ دہشت گرد اندھیرے اور ایمونیشن کی برتری کا فائدہ اُٹھا کے بھاگنے میں کامیاب رہیں گے۔ خوشی قسمتی سے ہم ائیر پورٹ کے ریڈار کی رینج میں آ گئے تھے، ہماری گاڑی کے وائرلیس سے ریڈار آپریٹر ہماری راہنمائی کر رہا تھا۔ ہم دو جوان غیر محسوس انداز میں آگے بڑھ رہے تھے۔ ہم ابھی اس گڑھے سے دو سو گز دور ہی ہوں گے کہ وہ ہماری موجودگی سے آگاہ ہو گئے۔ ایک طویل برسٹ فائر ہوا۔ میں نے بروقت خود کو زمین پر گرا لیا۔ لیکن مرزا علی کو کئی گولیاں لگ چکی تھیں، اب خاموشی یا واپسی کا مطلب بےبسی کی موت تھا، میں فائر کرتا ہوا گڑھے کی طرف دوڑا۔ دوبارہ فائرنگ کے لیے سر بلند کرتے ہوئے دو دہشت گرد میرا نشانہ بنے اور وہ الٹ کے گڑھے میں گرے۔ جوابی فائرنگ سے پہلے میں ان کے گڑھے کے نزدیک ایک گڑھے میں خود کو گرانے میں کامیاب رہا۔ لیکن کچھ تاخیر ہو چکی تھی، کئی انگارے میرے کندھوں اور بازوؤں میں گھس چکے تھے۔ چند لمحوں میں ہی میری گن اور ہاتھ خون سے تر بتر ہو گئے لیکن اب صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی آ چکی تھی۔ دو ساتھیوں کی موت کے بعد دہشت گردوں کے حوصلے پست ہو چکے تھے۔ دوسری طرف ہم ان کے بالکل سر پر پہنچ گئے تھے، اس لیے جب انھیں ہتھیار پھینکے کا حکم دیا گیا تو تھوڑی سی گالی گلوچ اور مذاکرات کے بعد وہ آمادہ ہو گئے۔ جیسے ہی وہ ہتھیار پھینک کے گڑھے سے نکلے، اپنی تربیت کے مطابق ہم نے مزید دو کو ٹانگوں پر گولیاں مار کے پنکچر کیا اور انھیں گرفتار کر لیا۔ مجھے اور علی کو فوراً ہاسپٹل پہنچایا گیا، لیکن ہماری بدقسمتی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ گرفتار ہونے والے دہشت گرد ایک وفاقی وزیر کے ذاتی سیکورٹی گارڈ تھے جو کہیں کارروائی ڈال کے آ رہے تھے اور مرنے والوں میں اس کا کوئی بھتیجا یا بھانجا بھی شامل تھا۔ کیپٹن لودھی سمیت ہمیں فوراً معطل کر دیا گیا۔ وفاقی وزیر ہمیں اور خاص طور پر مجھے اور علی کو پھانسی کے پھندے پر دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ ہم پر جعلی مقابلہ اور اقدام قتل کی ایف آئی آر کٹوانے کے لیے بڑا پر عزم تھا لیکن کیپٹن لودھی کی کاٹھی بھی تگڑی تھی، اسی دوران ڈرامائی طور پر جمہوری حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ لیکن کیپٹن لودھی کے سوا ہم سب دوبارہ کبھی بحال نہیں ہو سکے۔ چھ مہینے بعد ہمیں مستقل جبری رخصتی کا پروانہ مل گیا۔\nمیرا قصہ مکمل کرنے تک ایس آئی جس کا نام بعد میں باسط ابڑو پتہ چلا، کے تاثرات اور رویہ بدل چکا تھا۔ اس نے مجھے کرسی پر بٹھایا، سگریٹ کی پوری ڈبی اور ماچس عنایت کی اور چائے بھی پلائی۔ حارث اس کے کسی جگری کا دوست تھا، جو پیکٹ مجھے دے کر کے بھیجا گیا تھا، اس میں باسط کے لیے نذرانہ موجود تھا۔ ایس آئی ابڑو نے مجھے اپنی مشکل بتاتے ہوئے کہا کہ تمھیں سیٹھ صاحب اور ان کے خاندان کی سیاسی اور سماجی حیثیت اور طاقت کا اندازہ نہیں ہے۔ تم ابھی تک زندہ ہو تو اسے حارث کی رحم دلی ہی سمجھو۔ تمھارے لیے یہی بہتر ہے کہ اپنی منحوس شکل لے کے کہیں دور دفع ہو جاؤ اور دوبارہ کبھی چھوٹی بیگم صاحبہ سے رابطہ نہ کرنا۔\nحارث نے مجھے تمھارے ہاتھ پیر توڑ کر معذور کرنے کا کہا تھا۔ تم ابھی دو چار دن ادھر ہی رہو گے، میں دیکھتا ہوں کہ میں تمھارے لیے کیا کر سکتا ہوں لیکن زیادہ بہتری کی امید نہ رکھنا۔\nتھوڑی دیر بعد مجھے حوالات میں بند کر دیا گیا۔ یہاں دوسرے کئی ملزم بھی چادریں اوڑھے لیٹے ہوئے تھے، میں بھی ایک دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کے ٹانگیں سیدھی کر کے بیٹھ گیا۔ پچھلے چوبیس گھنٹے بہت ہنگامہ خیز رہے تھے، میں کئی دفعہ پٹا، جسم کا جوڑ جوڑ درد کر رہا تھا، لیکن آنکھیں بند ہوتے ہی ایک ملیح چہرہ میرے تصور میں ابھر آیا۔ دل سے بے اختیار ایک ہوک سی اٹھی۔ کیا میں زندگی میں دوبارہ چھوٹی بیگم صاحبہ کو دیکھ پاؤں گا؟ میں نے دکھ سے سوچا۔\nاچھا ہے، میں ان سے اتنا دور چلا جاؤں کہ میرے منحوس وجود کی تہمت بھی ان کے پاکیزہ وجود تک نہ پہنچ سکے۔ خیالوں کی وادیوں میں بھٹکتے ہوئے کچھ دیر کے لیے میری آنکھ لگتی، پھر درد کی ٹیسیں اور مستقبل کے خدشات مجھے جگا دیتے۔ شاید رات کا آخری پہر چل رہا تھا کہ تھانے کے باہرایک گاڑی کے ٹائر سخت بریک سے چرچرائے۔ پھر زور سے دروازہ بند ہونے کی آواز آئی۔ رات کی خاموشی کی وجہ سے آوازیں صاف سنائی دے رہیں تھیں۔ خوابیدہ تھانے کے ماحول میں اچانک ہی ہلچل سے مچ گئی تھی۔ ایک آواز سنتے ہی میرے سر پر گویا حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔\nاگر الیاس یہاں پر نہیں ہیں تو باہر کھڑی میری گاڑی یہاں تمھارا باپ لایا ہے؟ یو ایڈیٹ۔ تمھیں پتہ ہے تم کس سے بات کر رہے ہو؟ میں تمھارا خون پی جاؤں گی۔\nشیرنی کی طرح دھاڑتی یہ آواز چھوٹی بیگم صاحبہ کے علاوہ اور کس کی ہو سکتی تھی۔\nاس آواز نے میرے نیم مردہ جسم میں نئی جان ڈال دی تھی۔ میں لپک کے حوالات کی سلاخوں کے پاس پہنچا اور باہر دیکھنے کی کوشش کی۔ برآمدے کے بلب کی ہلکی سی روشنی اس راہدری میں پڑ رہی تھی جہاں سب انسپکڑ کا کمرہ تھا لیکن حوالات اس زوایے پر تھی کہ مجھے وہ کمرہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ کی آمد نے جہاں میرے اندر نیا ولولہ اور ہمت پیدا کر دی تھی وہاں میں کسی المیے اور انہونی کے خدشات سے لرز رہا تھا۔ سب انسپکٹر کی آنکھ میں سور کا بال تھا، چھوٹی بیگم صاحبہ کو رات کے اس پہر تھانے میں نہیں آنا چاہیے تھا۔ کمرے سے مسلسل تیز تیز بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اچانک ایک ایسی بھاری بھر کم اور گونج دار آواز سنائی دی جسے سن کے میرے سارے خدشات دھل گئے۔\n”اوے حرامخور، چھووٹی بیگم صاحب کے سامنے اپنی آواز نیچھی رکوو۔ ورنہ خدایا پاکا کی قسم ام پورا میگزین تیرے تھوبڑے پر خالی کر دے گا۔پھر تیرا ماں بھی تیرا شناحت نہیں کر پائے گا۔“\nیہ ولی خان تھا، سیٹھ صاحب کا ذاتی محافظ۔ اس کا باپ بھتہ خوروں کی طرف سے کیے گئے قاتلانہ حملے میں سیٹھ صاحب کو بچاتے ہوئے جاں بحق ہو گیا تھا۔ ولی خان کا بچپن اور لڑکپن سیٹھ صاحب کے بنگلے میں ہی گزرا تھا۔ یہ وفادار قبائلی سیٹھ صاحب کی خاطر جان دینے اور جان لینے کا حوصلہ رکھتا تھا۔\nلگ رہا تھا کہ سب انسپکڑ کے کمرے میں صورتحال کشیدہ ہو چکی ہے، کچھ عجب نہیں ولی خان نے پولیس والوں کو گن پوائنٹ پر لے رکھا ہو۔\nتھوڑی دیر بعد حوالات کی طرف آتے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ میری ساری حسیات آنکھوں میں سمٹ آئیں تھیں۔ میں نے انتہائی دراز قد چھوٹی بیگم صاحبہ کو باسط ابڑو کے ساتھ حوالات کی طرف آتے دیکھا۔ پیچھے پیچھے ولی خان تھا۔ کلاشنکوف بیلٹ کے ساتھ اس کے سینے پر جھول رہی تھی اور وہ کسی جنگلی جانور کی طرح چوکنا نظر آ رہا تھا۔ بیگم صاحبہ نے نیلی جینز کے اوپر گہرے سبز رنگ کی ڈھیلی سی جرسی سی پہن رکھی تھی جس کی آستینیں فولڈ کی گئی تھیں، پیروں میں جاگر پہنے اور بالوں کا جوڑا بنائے ہوئے وہ ہمیشہ سے زیادہ خوبصورت لگ رہی تھیں۔ باسط ابڑو کا چہرہ ستا ہوا تھا۔ وہ کافی دبنگ بندہ تھا لیکن اس وقت وہ کچھ پریشان نظر آتا تھا۔ بیگم صاحبہ حوالات کے پیچھے سے مجھے بغور دیکھتی رہیں۔ ان کی آنکھیں سرخ اور چہرے کی رنگت سفید لٹھے کی طرح ہو رہی تھی۔\nتالہ کھولو!\nچھوٹی بیگم صاحبہ نے باسط ابڑو کو حکم دیا!\nباسط ابڑو کے چہرے پر روایتی ہٹ دھرمی نمودار ہو گئی۔\nبی بی جی! آپ بچوں جسی باتیں کرتی ہیں۔ دوبارہ عرض کر رہا ہوں کہ جس آدمی کو آپ چھوڑنے کا کہہ رہی ہیں، اسے آج رات میرے لوگوں نے نیشنل ہائی وے پر منشیات سمگل کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا ہے۔ آپ کی ذاتی کار بھی اس مکروہ دھندے میں استعمال ہو رہی تھی، لیکن میں نے ایف آئی آر صرف آپ کے ڈرائیور کے خلاف کاٹی ہے۔ صبح ہونے والی ہے، صبح ہم اسے عدالت میں پیش کر کے اس کا جسمانی ریمانڈ لے لیں گے۔ اگر آپ کا بالکل گزارہ نہیں ہو رہا اس کے بغیر تو صبح اپنے وکیل کے ساتھ عدالت تشریف لے آئیے گا، اور ضمانت کی درخوست دائر کر دیجیے گا۔ اللہ اللہ خیر سلا۔\nلُک آفیسر۔ تمھیں اندازہ بھی نہیں ہے کہ تم نے خود کو کس مصبیت میں پھنسا لیا ہے۔ تم نے لاک اپ میں ایک ایسے شخص کو بند کر رکھا ہے جس نے کوئی جرم نہیں کیا۔ ہم جانتے ہیں تمھارے پاس اس کی گرفتاری کا کوئی ریکارڈ ہے نہ ہی ابھی اس پر کوئی ایف آئی آر کٹی ہے۔ یہ سیدھا سادہ اغوا اور حبس بےجا کا کیس ہے۔ اس کے بعد تم لوگ الیاس پر بدترین تشدد کے بھی مرتکب ہو چکے ہو۔ ہم تم لوگوں کو عدالت میں گھیسٹ لیں گے۔ پھر تم ناک سے لکیریں بھی نکالو گے تو معاف نہیں کریں گے۔\nچھوٹی بیگم صاحبہ کے لہجے میں ان کا روایتی تحکم اور شان بےنیازی تھی۔\nسب انسپکڑ باسط ابڑو کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ بی بی جی میں آپ کے والد محترم کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ بڑے معقول اور شریف النفس انسان ہیں۔ سچ پوچھیے تو ان کے کردار کی حیا ہی مجھے مارے جا رہی ہے ورنہ آپ جس طرح ایک پاگل گن مین کے ذریعے مجھے دھمکانے کی کوشش کر رہی ہیں اور کارسرکار میں مداخلت کر رہی ہیں، اگر کوئی اور ایسا کرتا تو میں اسے بھی اس حوالات میں بند کر کے ایک ایف آئی آر اس پر بھی کاٹ دیتا۔ آپ ایک نجیب خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، ایک دو ٹکے کے سمگلر ڈرائیور کے پیچھے خود کو اتنا نہ گرائیے۔ آپ کو اس سے بہت بہتر مرد مل جائیں گے۔\nچھوٹی بیگم صاحب کے چہرے پر غصے کے شعلے لپکے۔ ولی خان کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو چکا تھا، اس نے رائفل کو کاک کر کے برسٹ موڈ پر کیا، اور اسے باسط ابڑو کے چہرے پر تان لیا۔ اگر بیگم صاحبہ ایک لمحہ کی بھی تاخیر کرتیں تو باسط کی کہانی وہیں ختم ہو جاتی۔ بیگم صاحبہ نے ہاتھ سے ولی کی رائفل کی نال کو پیچھے ہٹایا اور اسے ڈانٹ کے پیچھے دھکا دیا۔ صورتحال ایک دم سے دوبارہ سخت کشیدہ ہوگئی تھی۔ پولیس والوں نے بھی بیگم صاحبہ اور ولی کی طرف بندوقیں تان لیں تھیں۔ ولی غصے سے بل کھا رہا تھا اور پشتو میں باسط کو گالیاں اور قتل کرنے کا عزم دہرا رہا تھا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے اسے بمشکل شانت کیا۔\nتم ایسے نہیں مانو گے۔ ہم تمھارا دوسرا بندوبست کرتے ہیں۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے اپنی جینز کی سائیڈ پاکٹ سے اپنا سیل فون نکالتے ہوئے کہا۔\nسرکار! ہم تو صرف اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔ آپ پڑھے لکھے لوگ ہیں، آپ کو تو خوش ہونا چاہیے کہ ہم قانون کے مطابق اپنا کام کر رہے ہیں، پر آپ سیٹھ لوگ قانون کو موم کی ناک اور قانون کے رکھوالوں کو دلا سمجھتے ہیں۔ آپ کے گن مین نے دو دفعہ ایک تھانے میں ڈیوٹی پر موجود وردی میں ملبوس پولیس آفیسر پر گن تانی ہے، یہ بذات خود ایک نہایت سنگین جرم ہے لیکن میں بات کو بڑھانا نہیں چاہتا، آپ سے یہی گزارش ہے کہ گھر لوٹ جائیے، صبح وکیل کے ساتھ عدالت آ جائیے گا۔\nسب انسپکڑ باسط ابڑو اب پوری طرح سنبھل چکا تھا، اور چھوٹی بیگم صاحبہ کو وقتی طور پر وہاں سے ٹالنے کی فکر میں تھا۔\nچھوٹی بیگم صاحبہ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور فون پر بات کرتی رہیں۔ ان کے کال بند کرنے کے کچھ سیکنڈ بعد ہی باسط کے سیل فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ باسط نے سیل نکال کے نمبر دیکھا اور بے اختیار بیگم صاحب پر نظر ڈال کے فون کال ریسو کر لی۔\nجی سر!\nجی وہ ادھر ہی ہیں۔\nسر وہ۔۔۔\nجی سر۔۔\nایف آئی آر تو ابھی نہیں کاٹی سر۔\nجی لیکن۔۔۔\nمعافی چاہتا ہوں جناب۔\nباسط ابڑو بات کرتے ہوئے ہم سے دور چلا گیا اور کچھ دیر بعد وہ ماتھے سے پسینہ پونچھتا ہوا لوٹا۔ وہ سخت پریشان لگ رہا تھا۔\nلگ رہا تھا کہ باسط نے اوور کانفیڈنس میں ایک سنگین غلطی کر دی تھی۔ اس نے مجھے اٹھوا تو لیا تھا لیکن کسی قسم کی قانونی کارروائی نہیں کی تھی، اور میری کار کو بھی منظر سے ہٹانا بھول گیا تھا۔ شاید اسے یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ فدوی بالکل بے یار و مددگار اور لاوارث ہے، وہ بےفکر ہو کر اس کی ہڈیاں پسلیاں توڑتا رہے لیکن اللہ کی تقدیر ہمیشہ ظالموں کی تدبیر پر غالب آ جاتی ہے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے اپنے انکل ایس ایس پی صاحب کو کال کی تھی، اور باسط ابڑو سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے نہ صرف معطل کروا کے دم لیں گی بلکہ اسے بھی ایسے ہی تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا۔ مجھے باہر نکال کے باسط ابڑو اب میرے اور چھوٹی بیگم صاحبہ کے پیروں میں لوٹ رہا تھا، اور معافیاں مانگ رہا تھا۔ اس کی ساری اکڑ اور کروفر ہوا ہو چکا تھا۔ بیگم صاحبہ نے اس شرط پر اسے معاف کرنے کا وعدہ کیا کہ وہ سیٹھ صاحب کے سامنے حارث کے خلاف گواہی دے گا۔ تھوڑی سی سوچ بچار کے بعد وہ آمادہ ہو گیا۔ سب انسپکڑ کے کمرے سے نکل کر ہم احاطے میں پہنچے تو فجر کی اذانیں شروع ہو چکی تھیں۔ مجھے ابھی پتہ چلا تھا کہ میں حیدر آباد شہر میں ہوں۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے ولی خان کو لینڈ کروزر لے کر کے بنگلے پر پہنچنے کی ہدایت کی اور مجھے لے کر اپنی ہونڈا میں آ بیٹھیں۔ ولی خان کے چہرے پر تذبذب کے ِآثار تھے، وہ ہماری کار کے قریب کھڑا ہونٹ کاٹتا ہوا مجھے دیکھتا رہا۔\nکیا بات ہے ولی؟ کیوں کھڑے ہو؟ ہم نے کہا نہ گھر جاؤ!\nبیگم صاحب، ام آپ کو لےکر آیا ہے، اب اکیلا کیسا چلا جاوے؟ سیٹھ صاحب کو کیا جواب دے گا؟\nولی خان نے ڈرتے ڈرتے کہا۔\nآپ فکر نہ کرو ولی۔۔ ہم بابا کے جاگنے سے پہلے واپس آ جائیں گے، ہمیں کچھ کام ہے وہ کر کے آئیں گے۔ اور یاد رکھنا یہاں جو کچھ ہوا، وہ بابا کو بتانا ہے، جب ہم آپ کو بابا کے سامنے بلائیں گے۔ اس حارث کو چھوڑنا نہیں ہم نے۔\nآج اس نے الیاس کو اٹھوایا ہے، کل کو آپ کو اٹھوا دے گا۔ ہی بیکیم ٹوٹلی میڈ، ۔\nاوکے؟\nجی میڈم۔\nولی خان گاڑی لے کر چلا تو گیا لیکن وہ مطمئن نہیں لگ رہا تھا۔ جب ہم نیشنل ہائے وے پر آئے تو صبح کی روشنی پھیل چکی تھی۔ گاڑی بیگم صاحبہ ڈرائیو کر رہی تھیں، میں ان کے ساتھ سیٹ پر بیٹھا تھا۔\nاعصاب کو مطیع اور مفلوج کر دینے والی ایک بھینی بھینی خوشبو نے مسلسل مجھے اپنی لیپٹ میں لے رکھا تھا۔ المناک رات کا اتنا روشن سویرا ہوگا، یہ تو میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ کے چہرے کو حزن اور اداسی نے اپنی لیپٹ میں لے رکھا تھا۔ انھوں نے کئی دفعہ مجھ سے معذرت کی اور مجھے بتایا کہ اس واقعہ نے ان کے دل اور اعصاب پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ انھیں لگ رہا تھا کہ میری زندگی شدید خطرات میں گھر گئی ہے۔ حارث کے والد سیٹھ صاحب کے کئی کاموں میں بزنس پارٹنر بھی تھے۔ آثار یہی تھے کہ ایک معمولی ملازم کے لیے اس رشتے داری کو قربان نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ ہو سکتا ہے کہ ملازم کی جان کی قربانی ہی دے دی جائے۔ وہ مسلسل کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ کسی حتمی فیصلے کے ساحل پر لنگر انداز ہونا چاہتی ہیں لیکن نامعلوم اندیشوں کے بھنور انھیں ڈبو رہے ہیں۔\nناشتہ ہم نے سڑک کے کنارے آباد ایک وی آئی پی ریسٹورنٹ میں کیا۔ اب کراچی صرف پچاس کلومیٹر دور رہ گیا تھا۔ ناشتہ ختم کر کے چھوٹی بیگم صاحبہ نے کافی کا مگ اٹھاتے ہوئے مجھے گہری نظروں سے دیکھا، ایک گہری سانس لی، اور پھر بڑبڑائیں ۔۔ او کے لٹس فنش اٹ!\nپھر تھوڑا سا کھنکار کے، سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ نظریں جھکا کے بولیں،\nالیاس کیا آپ ہمیں اپنے نکاح میں قبول کر لیں گے؟\nمیرے سر پر تو گویا کسی نے بم پھوڑ دیا تھا۔ میں حیرت سے اچھل پڑا۔

Belum ada Komentar untuk "√ سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت قسط 2"

Posting Komentar

Iklan Atas Artikel

Iklan Tengah Artikel 1

Iklan Tengah Artikel 2

Iklan Bawah Artikel